Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط6


غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر6

وہ دونوں دعا مانگتے رہے عبادت کرتے رہے اور پھر وہ وقت بھی آ گیا جب واپس آ رہے تھے۔ 
رات کے دس بجے گھر پھنچے۔ تھکے ھوے تھے کچھ وقت باتیں کرنے کے بعد کمرہ میں آ گئے تھے آرام کرنے۔ 
ضیاء مجہے تو ابھی بھی لگ رہا ہے می ادھر ہی ہوں۔ آنکھ کھولتی ہوں تو خواب لگتا ہے۔ صفا حسرت سے بولی۔ 
دل چھوٹا مت کرو زندگی رہی تو پھر چلیں گے۔ جی ۔صفا خوش ہوئی۔ ضیاء صفا کے سنگ بہت خوش تھا پر قسمت کچھ اور ہی کرنے والی تھی۔
 سو جاؤ صفا تھک گئے ہیں اس کے بالوں میں فنگر پھیر رہا تھا ساتھ لیٹ کے آنکھیں بند کر لیں۔
 ہاہاہا ۔۔۔۔شاجین کبھی ہارا نہیں۔ اب دیکھنا میں تم لوگوں کی زندگی کیسے جہنم بناتا ہوں۔ 
وہ اپنے بندوں کے ساتھ پاکستان کی سر زمین پر کھڑا تھا۔
 ساتھیوں سے پوچھتا ہے پتہ کروایا انکا۔ جی باس پھر وہ ساری تفصیلات شاجین کو فراہم کرتا ہے۔
 شاجین کے چہرے پر شاطرانہ ہنسی تھی۔ باس آپ یہ کام مجہے دیں ۔
نہیں۔ اب یہ کام میں خود کروں گا۔ 
بیٹا ضیاء ہم دونوں کچھ دن کے لئے تقریب میں جا رہے ہیں زینت کے دوست کا گھر ہے۔
 صفا نئی دلہن ہے آپ بھی چلو ہمارے ساتھ انکو شوق ہے صفا کو دیکھنے کا۔ 
جی ماں میں تیار ہوتی ہوں۔ صفا کے لئے بہو کے لحاظ سے نیا تجربہ تھا۔ 
سب تقریب میں پھنچے۔ ضیاء کے ہاتھ میں صفا کا ہاتھ تھا۔ 
ضیاء بلیو پینٹ شرٹ اور صفا بلیو ییلو کومبینیشن سوٹ میں دونوں کی جوڑی بہت پیاری لگ رہی تھی۔ بال جوڑھے میں قید کچھ بال چہرے پر اتنی حسین لگ رہی تھی سب زینت کو مبارک دے رہیں تھیں۔
 ضیاء مردوں کی طرف چلا گیا اب صفا اپنی ساس کے ساتھ ہی رہی۔ کھانا کھایا۔انجواے کیا بہت۔
ضیاء کے امی ابو نے  پھر دو تین جگہ اور جانا تھا تو وو بولے ۔ ہفتہ آ جائے گا۔ گھبرانا نہیں شاید جلدی آ جایں۔ آپ گھر چلے جاؤ 
۔ جی ابو۔ جسی آپ کی مرضی۔ ضیاء نے کہا اور واپسی کی راہ لی۔
ماریہ کو بہت دن ہو گئے تھے صفا سے ملے ۔
اب اس سے رہا نہیں جا رہا تھا۔ اور کوئی اسکی فرینڈ بھی تو نہیں تھی۔ بس صفا ہی تھی۔ 
اسکا دل صفا کے گھر آنے کو چاہ رہا تھا۔
 شاجین کو ضیاء کا پتہ مل چکا تھا۔ وہ تھا بھی جلد باز فورا پستول لے کر نکل پڑا ضیاء کو ٹھکانے لگانے۔ شاجین تو لڑائی میں بھی ماہر تھا تب ہی تو اسکی انڈر ورلڈ ایک پہچان تھی۔ 
کوئی اس کے اگے ٹک نہیں پاتا تھا۔
 ادھر سے ماریہ کو گهبراہٹ ہو رہی تھی وہ صفا سے ملنے چل پڑی۔ 
اب دو بندے ضیاء کی طرف آ رہے تھے ایک شاجین اور دوسری ماریہ۔
بہت کچھ ہونے والا تھا ۔ ضیاء بیڈ پر صفا کے ساتھ بیٹھا تھا۔ صفا کا رخ دروازہ کی جانب تھا اور ضیاء ٹیڑھا ہو کر صفا کی طرف رخ کر کے بیٹھا ہوا تھا۔ 
ضیاء میرا دل پتہ نہیں کیوں گھبرا رہا ہے۔
 ایسے لگ رہا ہے جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔ 
کچھ نہیں ہے بس تمہارا وہم ہے۔ 
لو یہ پانی پیو صبح سے بلا وجہ پریشان ہو۔
 آج آپ میرے ساتھ رہیں کہیں مت جانا۔
 ہاں بابا نہیں جاتا اب تو ٹھیک ہو جاؤ ۔ 
ضیاء نے صفا کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لٹے تسلی دی۔ صفا بس ضیاء ہی کو دکھے دیکھنے جا رہی تھی لیٹ بھی نہیں رہی تھی۔
 پھر وہ وقت آ گیا جب شاجین ان کے گھر میں بے آواز کود کے اندر آیا۔ 
ادھر سے ماریہ بھی پہنچ گئی تھی۔ دروازہ نہیں کھٹکھٹاتی۔ سرپرائز دیتی ہوں وہ آہستہ سے اندر آ گئی۔ 
شاجین نے گھر کا جائزہ لیا ایک کمرہ میں اس کو لگا کے وہ اندر ہیں۔ 
دروازے کے سوراخ سے جھانک کے دیکھا پھر ہنس کر جلدی سے سائلینسر لگایا ۔
اس پستول میں سلاخ ٹائپ گولیاں تھیں۔ صفا کی گردن کے درمیان کا نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ جو کہ سیدھا صفا کی شاہ رگ میں جا لگی اور اسی وقت وہ پیچھے کو گر گئی۔
 صفا کیا ہوا صفا کو جهنجوڑ رہا تھا ضیاء کیوں کے اسکو کچھ نظر نہیں آیا۔ 
اتنے میں ماریہ آیی۔ دروازہ سے دیکھتی ہوں کیا چل رہا ہے ۔
جب دیکھا تو ماریہ کے ہوش اڑ گئے۔ ضیاء نے نبض چیک کی صفا مر چکی تھی ۔
یہ کیسے ہو گیا دروازے کی طرف بھاگا۔
 سامنے ماریہ کھڑی تھی وہ بھی اندر سے سب دیکھ چکی تھی۔ 
ضیاء کو دیکھ کر اسکو ڈر لگا اور بھاگی۔
 ضیاء چیخا تمنے صفا کو مارا۔
 ماریہ ڈر کے مارے رکی نہیں اور ضیاء اس کے پیچھے پھر یکدم ضیاء کو صفا کا خیال آیا۔ واپس بھاگا۔
 تمہیں نہیں چہوڑوں گا ماریہ۔ بھاگو جہاں مرضی۔ بچو گی نہیں مجھ سے ۔
چلایا اور واپس بھاگا۔ ماریہ بھاگتے اپنے گھر آیی۔ اپنی امی کے گلے لگ کے رو دی ۔
امی میں نے کچھ نہیں کیا۔ ساری بات بتای ۔
امی وہ آ جائے گا مجہے جانا ہوگا۔ 
بیٹا کچھ نہیں ہوگا ۔
نہیں امی اسکو یقین نہیں آنا۔ مجہے جانا ہے۔ 
جلدی سے سامان اٹھاتی ہے رقم لی اور بھاگتے کی کی کیوں کے ضیاء کسی وقت بھی پہنچ سکتا تھا۔
 ماں دعا کرنا میں اپنی بے گناہی ثابت کر کے کامیاب لوٹوں ۔
آمین۔
 اپنا خیال رکھنا مجہے تم پر پورا بھروسہ ہے۔ 
اب اس کا رخ کراچی کی طرف تھا جہاں اسکی دوست رہتی تھی۔
 جسکا کسی کو پتہ نہیں تھا۔ ادھر ماریہ کو محفوظ لگا جانا۔
 اس سے پہلے کے ضیاء سیکورٹی لگا دے مجہے نکلنا ہے یہاں سے ہر حال میں ۔
صفا کے لئے رو رہی تھی راستے میں۔ ضیاء تمہیں کیوں لگا کہ می صفا کو مار سکتی ہوں وہ میری دوست تھی۔
 میری زندگی تھی میری خوشی تھی۔ ایک ہی تو دوست تھی۔ کیوں کروں گی میں ایسا۔
 میں یہاں سے نکل جاؤں پھر آگے کا سوچوں گی۔ میری صفا کو کس نے مارا۔
 میں لوں گی بدلہ اپنی دوست کا۔ تڑپا کر ماروں گی اس دشمن کو ۔
اور ضیاء سے دل میں مخاطب ہوئی کاش میرا کچھ تو بھروسہ کیا ہوتا۔
 آنسو تھے کے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے آخر کو چوٹ بھی تو گہری لگی تھی۔ 
ضیاء نے صفا کو دفنا دیا تھا۔ بہت بری حالت تھی۔ ضرار جی اور زینت بھی پہنچ گئے تھے ٹائم پر۔
بیٹا ہمیں نہیں لگتا کے یہ ماریہ نے کیا۔ 
وہ دونوں بچپن کی دوست تھیں۔ کوئی اور ہوگا۔ نہیں ماں مجہے یقین ہے۔
 ضیاء کو چند دن پہلے ماریہ کی کہی بات یاد آ رہی تھی۔ اور پھر اس کا بھاگنا صفا کی موت کے وقت۔ ضیاء کی آنکھیں بھر گیں۔ 
اسی نے کیا ہے اور میں اسکو بہت بری موت دوں گا۔ یہ میرا صفا سے وعدہ ہے۔

   0
0 Comments